كل سے نکل
كل سے نکل کے کل کو دکھائے چراغ اب،
کب تک جلینگے خود کو لگا کے یہ آگ اب۔
یہ زندگی ہے روز ہی کل آئےگا نیا،
اُس نیند سے کہہ دیجئے جائے نہ جاگ اب۔
ہر روز بدلتا ہے دستورِ زمانہ
بس ختم کیجئے نہ پرانے وہ راگ اب۔
زندہ ہیں تو اس زندگی سے جنگ کس لئے،
آؤ مٹا دیں دل پے لگے سارے داغ اب۔
سیمیں نعیم صدیقی